3522- عن أبي جمرة قال قال لنا ابن عباس «ألا أخبركم بإسلام أبي ذر قال قلنا بلى قال قال أبو ذر كنت رجلا من غفار فبلغنا أن رجلا قد خرج بمكة يزعم أنه نبي فقلت لأخي انطلق إلى هذا الرجل كلمه وأتني بخبره فانطلق فلقيه ثم رجع فقلت ما عندك فقال والله لقد رأيت رجلا يأمر بالخير وينهى عن الشر فقلت له لم تشفني من الخبر فأخذت جرابا وعصا ثم أقبلت إلى مكة فجعلت لا أعرفه وأكره أن أسأل عنه وأشرب من ماء زمزم وأكون في المسجد قال فمر بي علي فقال كأن الرجل غريب قال قلت نعم قال فانطلق إلى المنزل قال فانطلقت معه لا يسألني عن شيء ولا أخبره فلما أصبحت غدوت إلى المسجد لأسأل عنه وليس أحد يخبرني عنه بشيء قال فمر بي علي فقال أما نال للرجل يعرف منزله بعد قال قلت لا قال انطلق معي قال فقال ما أمرك وما أقدمك هذه البلدة قال قلت له إن كتمت علي أخبرتك قال فإني أفعل قال قلت له بلغنا أنه قد خرج ها هنا رجل يزعم أنه نبي فأرسلت أخي ليكلمه فرجع ولم يشفني من الخبر فأردت أن ألقاه فقال له أما إنك قد رشدت هذا وجهي إليه فاتبعني ادخل حيث أدخل فإني إن رأيت أحدا أخافه عليك قمت إلى الحائط كأني أصلح نعلي وامض أنت فمضى ومضيت معه حتى دخل ودخلت معه على النبي صلى الله عليه وسلم فقلت له اعرض علي الإسلام فعرضه فأسلمت مكاني فقال لي يا أبا ذر اكتم هذا الأمر وارجع إلى بلدك فإذا بلغك ظهورنا فأقبل فقلت والذي بعثك بالحق لأصرخن بها بين أظهرهم فجاء إلى المسجد وقريش فيه فقال يا معشر قريش إني أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فقالوا قوموا إلى هذا الصابئ فقاموا فضربت لأموت فأدركني العباس فأكب علي ثم أقبل عليهم فقال ويلكم تقتلون رجلا من غفار ومتجركم وممركم على غفار فأقلعوا عني فلما أن أصبحت الغد رجعت فقلت مثل ما قلت بالأمس فقالوا قوموا إلى هذا الصابئ فصنع بي مثل ما صنع بالأمس وأدركني العباس فأكب علي وقال مثل مقالته بالأمس قال فكان هذا أول إسلام أبي ذر رحمه الله.»
Narrated Abu Jamra:Ibn `Abbas said to us, "Shall I tell you the story of Abu Dhar's conversion to Islam?" We said, "Yes." He said, "Abu Dhar said: I was a man from the tribe of Ghifar. We heard that a man had appeared in Mecca, claiming to be a Prophet. ! said to my brother, 'Go to that man and talk to him and bring me his news.' He set out, met him and returned. I asked him, 'What is the news with you?' He said, 'By Allah, I saw a man enjoining what is good and forbidding what is evil.' I said to him, 'You have not satisfied me with this little information.' So, I took a waterskin and a stick and proceeded towards Mecca. Neither did I know him (i.e. the Prophet (ﷺ) ), nor did I like to ask anyone about him. I Kept on drinking Zam zam water and staying in the Mosque. Then `Ali passed by me and said, 'It seems you are a stranger?' I said, 'Yes.' He proceeded to his house and I accompanied him. Neither did he ask me anything, nor did I tell him anything. Next morning I went to the Mosque to ask about the Prophet but no-one told me anything about him. `Ali passed by me again and asked, 'Hasn't the man recognized his dwelling place yet' I said, 'No.' He said, 'Come along with me.' He asked me, 'What is your business? What has brought you to this town?' I said to him, 'If you keep my secret, I will tell you.' He said, 'I will do,' I said to him, 'We have heard that a person has appeared here, claiming to be a Prophet. I sent my brother to speak to him and when he returned, he did not bring a satisfactory report; so I thought of meeting him personally.' `Ali said (to Abu Dhar), 'You have reached your goal; I am going to him just now, so follow me, and wherever I enter, enter after me. If I should see someone who may cause you trouble, I will stand near a wall pretending to mend my shoes (as a warning), and you should go away then.' `Ali proceeded and I accompanied him till he entered a place, and I entered with him to the Prophet (ﷺ) to whom I said, 'Present (the principles of) Islam to me.' When he did, I embraced Islam 'immediately. He said to me, 'O Abu Dhar! Keep your conversion as a secret and return to your town; and when you hear of our victory, return to us. ' I said, 'By H him Who has sent you with the Truth, I will announce my conversion to Islam publicly amongst them (i.e. the infidels),' Abu Dhar went to the Mosque, where some people from Quraish were present, and said, 'O folk of Quraish ! I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and I (also) testify that Muhammad is Allah's Slave and His Apostle.' (Hearing that) the Quraishi men said, 'Get at this Sabi (i.e. Muslim) !' They got up and beat me nearly to death. Al `Abbas saw me and threw himself over me to protect me. He then faced them and said, 'Woe to you! You want to kill a man from the tribe of Ghifar, although your trade and your communications are through the territory of Ghifar?' They therefore left me. The next morning I returned (to the Mosque) and said the same as I have said on the previous day. They again said, 'Get at this Sabi!' I was treated in the same way as on the previous day, and again Al-Abbas found me and threw himself over me to protect me and told them the same as he had said the day before.' So, that was the conversion of Abu Dhar (may Allah be Merciful to him) to Islam
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم سے زید نے جو اخزم کے بیٹے ہیں، بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم بن قتیبہ نے بیان کیا، ان سے مثنیٰ بن سعید قصیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لیے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے، میرے لیے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کو حکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی۔ آخر انہوں نے خود توشہ باندھا، پانی سے بھرا ہوا ایک پرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے۔ مسجدالحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ کے متعلق پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزر گئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا آپ میرے گھر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجدالحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتادوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے انہیں اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں ( راستے میں ) کوئی ایسی بات دیکھوں جس سے مجھے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا ( کسی دیوار کے قریب ) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے۔ اس وقت تم میرا انتظار مت کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاو تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے ( تو پھر ہمارے پاس آ جانا ) ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجدالحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں“ یہ سنتے ہی ان پر سارا مجمع ٹوٹ پڑا اور سب نے انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے انہوں نے کہا افسوس! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے، اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجدالحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگے۔ اس دن بھی عباس ان پر اوندھے پڑ گئے۔ کیا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ تمہیں سناؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور سنائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بتلایا۔ میرا تعلق قبیلہ غفار سے تھا۔ ہمارے یہاں یہ خبر پہنچی تھی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں ( پہلے تو ) میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس شخص کے پاس مکہ جا، اس سے گفتگو کر اور پھر اس کے سارے حالات آ کر مجھے بتا۔ چنانچہ میرے بھائی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور واپس آ گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھے کاموں کے لیے کہتا ہے اور برے کاموں سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہاری باتوں سے تو میری تشفی نہیں ہوئی۔ اب میں نے توشے کا تھیلا اور چھڑی اٹھائی اور مکہ آ گیا۔ وہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا اور آپ کے متعلق کسی سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ میں ( صرف ) زمزم کا پانی پی لیا کرتا تھا، اور مسجدالحرام میں ٹھہرا ہوا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس شہر میں مسافر ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: جی ہاں۔ بیان کیا کہ تو پھر میرے گھر چلو۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر ساتھ لے گئے۔ بیان کیا کہ میں آپ کے ساتھ ساتھ گیا۔ نہ انہوں نے کوئی بات پوچھی اور نہ میں نے کچھ کہا۔ صبح ہوئی تو میں پھر مسجدالحرام میں آ گیا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھوں لیکن آپ کے بارے میں کوئی بتانے والا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے کہ کیا ابھی تک آپ اپنے ٹھکانے کو نہیں پا سکے ہیں؟ بیان کیا، میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا پھر میرے ساتھ آئیے، انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ آپ کا مطلب کیا ہے۔ آپ اس شہر میں کیوں آئے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: آپ اگر ظاہر نہ کریں تو میں آپ کو اپنے معاملے کے بارے میں بتاؤں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ تب میں نے ان سے کہا۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی شخص پیدا ہوئے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں نے پہلے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے مجھے کوئی تشفی بخش اطلاعات نہیں دیں۔ اس لیے میں اس ارادہ سے آیا ہوں کہ ان سے خود ملاقات کروں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ نے اچھا راستہ پایا کہ مجھ سے مل گئے۔ میں انہیں کے پاس جا رہا ہوں۔ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ جہاں میں داخل ہوں آپ بھی داخل ہو جائیں۔ اگر میں کسی ایسے آدمی کو دیکھوں گا جس سے آپ کے بارے میں مجھے خطرہ ہو گا تو میں کسی دیوار کے پاس کھڑا ہو جاؤں گا، گویا کہ میں اپنا جوتا ٹھیک کر رہا ہوں۔ اس وقت آپ آگے بڑھ جائیں چنانچہ وہ چلے اور میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور آخر میں وہ ایک مکان کے اندر گئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اندر داخل ہو گیا۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و ارکان مجھے سمجھا دیجئیے۔ آپ نے میرے سامنے ان کی وضاحت فرمائی اور میں مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اے ابوذر! اس معاملے کو ابھی پوشیدہ رکھنا اور اپنے شہر کو چلے جانا۔ پھر جب تمہیں ہمارے غلبہ کا حال معلوم ہو جائے تب یہاں دوبارہ آنا۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں تو ان سب کے سامنے اسلام کے کلمہ کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ وہ مسجدالحرام میں آئے۔ قریش کے لوگ وہاں موجود تھے اور کہا، اے قریش کی جماعت! ( سنو ) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قریشیوں نے کہا کہ اس بددین کی خبر لو۔ چنانچہ وہ میری طرف لپکے اور مجھے اتنا مارا کہ میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے چھپا لیا اور قریشیوں کی طرف متوجہ ہو کر انہوں کہا۔ ارے نادانو! قبیلہ غفار کے آدمی کو قتل کرتے ہو۔ غفار سے تو تمہاری تجارت بھی ہے اور تمہارے قافلے بھی اس طرف سے گزرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب دوسری صبح ہوئی تو پھر میں مسجدالحرام میں آیا اور جو کچھ میں نے کل پکارا تھا اسی کو پھر دہرایا۔ قریشیوں نے پھر کہا: پکڑو اس بددین کو۔ جو کچھ انہوں نے میرے ساتھ کل کیا تھا وہی آج بھی کیا۔ اتفاق سے پھر عباس بن عبدالمطلب آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے انہوں نے چھپا لیا اور جیسا ا نہوں نے قریشیوں سے کل کہا تھا ویسا ہی آج بھی کہا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی ابتداء اس طرح سے ہوئی تھی۔
Ebu Cemra dedi ki: "İbn Abbas bize dedi ki: Size Ebu Zer' 'in Müslüman oluşunu anlatayım mı? Ebu Cemre dedi ki: Anlat, dedik. İbn Abbas da Ebu Zer' dedi ki: Ben Ğıfar'dan bir adam idim. Bize nebi olduğunu iddia eden bir adam'ın Mekke'de ortaya çıktığı haberi ulaştl. Kardeşime: Bu adamın yanına git, onunla konuş ve ona dair ondan bana haber getir, dedim. Kardeşim gitti, onunla karşılaştı, sonra geri döndü: Ne haber, diye sordum. O, Allah'a yemin ederim, ben hayrı emreden, kötülükten de alıkoyan bir adam gördüm dedi. Ben de ona, bu getirdiğin haber beni rahatlatınadı, dedim. Yanıma bir dağarcık ve bir asa aldım. Sonra da Mekke'ye doğru yola koyuldum. Ben onu tanımıyordum. Onun hakkında kimseye soru sormaktan da hoşlanmıyordum. Zemzem suyundan içiyor ve mescidde kalıyordum. (Ebu Zerr devamla) dedi ki: Ali yanımdan geçti. Bu adam sanki bir yabancı, dedi. Ben evet dedim. Haydi gel eve gidelim dedi. Ben de onunla birlikte yola koyuldum. O bana hiçbir şeye dair bir şey sormuyor, ben de ona söylemiyordum. Sabah olunca ona dair soru sormak üzere mescide gittim. Fakat onun hakkında bana haber verecek kimse yoktu. (Ebu Zer') dedi ki: Yine yanıma Ali geldi. Acaba bu adam henüz onun evini kendisine söyleyecek birisini bulamadı mı, dedi. Ben hayır dedim. Haydi benimle beraber yürü, dedi. Sonra bana senin halin ne? Bu şehre gelmenin sebebi ne, dedi. Ben de ona, eğer benim durumumu gizleyecek olursan sana haber veririm dedim. Dediğini yaparım diye cevap verdi. O zaman bende burada kendisinin bir nebi olduğunu iddia eden bir adamın ortaya çıktığına dair bize bir haber ulaştı. Kendisiyle konuşmak üzere kardeşimi gönderdim. Fakat geriye döndüğünde getirdiği haber beni rahatlatınadı. Kendim onunla karşılaşmak istedim, dedim. Ali ona dedi ki: Sen doğru yoldasın. İşte ben de onun yanına gidiyorum, sen de arkamdan gel. Benim gireceğim yere sen de gir, sana zarar vereceğinden korktuğum birisini görecek olursam ayakkabımı düzeltiyormuşum gibi duvarın yanında ayakta duracağım. Sen de yoluna devam et. Nihayet o gitti, ben de onunla birlikte yola koyuldum. O bir yere gitti, ben de onunla birlikte Nebi Sallallahu Aleyhi ve Sellem'in huzuruna girdim. Ona, Bana,İslaml arzet, dedim, o da arzetti. Olduğum yerde Müslüman oldum. Bana: Ey Ebu Zer', bu işi gizle ve şehrine geri dön. Bizim ortaya çıktığımız haberi sana ulaştığı takdirde geri gel, diye buyurdu. Ben dedim ki: Seni hak ile gönderene yemin ederim ki ben bunu onların arasında feryat ederek söyleyeceğim. Daha sonra Ebu Zer' mescide geldi. Kureyş de mescidde idi. Ey Kureyşliler topluluğu, dedi. Şüphesiz ki ben Allah'tan başka hiçbir ilah olmadığına şahitlik ettiğim gibi Muhammed'in de onun kulu ve Resulü olduğuna şahitlik ederim. Kureyşliler: Bu dinini terk edenin üzerine gidiniz, dedi. Hepsi birlikte ayağa kalktılar. Ölesiye bana vurdular. Abbas yetişip ve üzerime kapandı. Sonra da onlara dönerek dedi ki: Vay sizin halinize! Sizle( Ğıfarlılardan birisini öldürecektini. Halbuki sizin ticaret yollarınız ve gidip gelişiniz Ğıfarlıların bulunduğu yerler üzerindendir. Bunun üzerine beni terk ettiler. Ertesi gün sabah olunca yine oraya döndüm, bir gün önce söylediğimin benzerini söyledim. Yine onlar da: Bu dininden dönene kalkınız deyip, bir gün önce bana yapılanların benzeri yapıldı. Yine Abbas bana yetişti, üzerime abandı ve bir gün önce söylediği sözlerin benzerini söyledi. (İbn Abbas) dedi ki: İşte Ebu Zer' 'in -Allah'ın rahmeti üzerine olsun- ilk Müslüman oluşu böyle olmuştu." Bu Hadis İleride 3761 numara ile gelecektir. 12. ZEMZEM KISSASI İLE ARAPLARıN CEHALETİ
Telah bercerita kepada kami [Zaid, dia adalah anak dari Akhzam] berkata, telah bercerita kepada kami [Abu Qutaibah, Salmu bin Qutaibah] telah bercerita kepadaku [Mutsanna bin Sa'id Al Qashir] berkata, telah bercerita kepadaku [Abu Jamrah] berkata, [Ibnu 'Abbas radliallahu 'anhuma] berkata kepada kami; "Maukah kalian aku ceritakan tentang masuk Islamnya Abu Dzarr radliallahu 'anhu?". Abu Jamrah berkata; Kami jawab; "Ya, mau". Ibnu 'Abbas radliallahu 'anhuma berkata; Abu Dzarr radliallahu 'anhu menuturkan; "Aku adalah seorang laki-laki dari suku Ghifar, kemudian sampai berita kepada kami bahwa ada seorang laki-laki di Makkah yang mengaku sebagai Nabi, kemudian aku katakan kepada saudaraku; "Pergilah kamu menemui laki-laki itu, bicaralah dengannya lalu bawalah kepadaku kabar tentangnya". Maka saudaraku berangkat menemui laki-laki itu kemudian kembali. Aku bertanya; "Apa yang kamu bawa?". Dia menjawab; "Demi Allah, sungguh aku telah melihat dia seseorang yang mengajak kepada kebaikan dan melarang keburukan". Aku katakan kepadanya; "Aku belum puas tentang kebaikan yang kamu sampaikan". Maka aku ambil kantong (terbuat dari kulit) dan sebatang tongkat kemudian aku berangkat menuju Makkah. Sesampainya di sana aku tidak kenal laki-laki yang dimaksud sedang aku enggan bertanya tentangnya. Maka kuminum air zamzam lalu aku duduk di masjid (al-Haram) ". Abu Dzar melanjutkan; "Lalu 'Ali radliallahu 'anhu lewat di dekatku dan berkata; Sepertinya anda orang asing?". Abu Dzarr berkata; "Aku jawab; "Ya, benar". 'Ali berkata; "Mari singgah ke rumah". Abu Dzarr berkata; "Maka aku berangkat bersamanya dan dia tidak bertanya apapun kepadaku dan aku juga tidak menceritakan maksud kedatanganku'. Pada pagi harinya, aku kembali menuju masjid untuk bertanya tentang orang yang mengaku Nabi namun tidak ada seorangpun yang dapat memberi kabar kepadaku". Abu Dzarr melanjutkan; "Lalu 'Ali menghampiriku dan berkata; "Mungkin orang ini (maksud Ali Abu Dzar sendiri) sudah tahu rumah Muhammad!". Abu Dzarr menjawab; "Ah belum". 'Ali berkata; "Mari ikut aku". Abu Dzarr berkata; Lalu 'Ali bertanya; "Apa kepentinganmu dan apa tujuanmu mengunjungi negeri ini?". Abu Dzarr berkata; Aku katakan kepadanya, "Kalau kamu mau merahasiakannya, aku akan memberitahumu!. 'Ali menjawab; "Ya, akan kulakukan!". Abu Dzarr berkata, "lalu aku ceritakan kepadanya; "Telah sampai berita kepada kami bahwa di negeri ini telah datang seseorang yang mengaku sebagai Nabi maka aku mengutus saudaraku untuk berbicara dengannya, lalu dia kembali, namun aku tidak puas dengan kebaikan yang diterangkannya. Maka aku ingin menemuinya". Maka 'Ali berkata kepadanya; "Sungguh kamu telah mendapat petunjuk dan inilah aku orang yang akan menunjukkan jalan untuk menemuinya. Untuk itu, ikutilah aku, dan masuklah saja jika aku masuk, dan jika aku melihat ada orang yang aku khawatiri, aku akan berdiri merapat ke tembok seakan-akan aku sedang membetulkan sandalku, maka saat itu pergilah kamu". Kemudian 'Ali pergi berlalu dan aku ikut pergi bersamanya hingga ketika dia masuk aku pun ikut masuk menemui Nabi shallallahu 'alaihi wasallam. Kemudian aku bertanya kepada beliau; "Terangkanlah Islam kepadaku?". Maka beliau menerangkannya kepadaku lalu akhirnya aku masuk Islam dan berganti agama. Kemudian beliau berkata kepadaku; "Wahai Abu Dzarr, rahasiakanlah masalah ini dan kembalilah ke negerimu. Nanti jika sampai berita kepadamu tentang kejayaaan kami datanglah menghadap kemari." Aku berkata; "Demi Dzat yang telah mengutus baginda dengan haq, sungguh aku pasti akan menjelaskan masalah ini di hadapan mereka". Maka dia mendatangi masjid sedangkan orang-orang Quraisy sedang berada di sana lalu dia berkata; 'Wahai sekalian Quraisy, aku bersaksi tidakada yang berhak disembah selain Allah dan aku besaksi bahwa Muhammad adalah hamba-Nya dan Rasul-Nya. Maka mereka berkata; "Berdirilah kalian untuk (menghajar) orang yang baru saja mengganti agamanya ini". Maka mereka berdiri semuanya lalu aku dipukuli hingga hampir mampus. Kemudian 'Abbas mendapatkan aku, lalu membaringkan badanku, kemudian memandang mereka seraya berkata; "Celaka kalian, kalian hendak membunuh seorang pemuda dari suku Ghifar. Bukankah tempat berdagang kalian dan lalu lalang kalian (menuju Syam) melewati Ghifar?". Akhirnya mereka melepaskanku. Keesokan harinya, aku kembali ke masjid dan kembali mengatakan seperti yang kemarin. Maka mereka kembali berkata; "Berdirilah kalian untuk (menghajar) orang yang baru saja mengganti agamanya ini". Maka aku diperlakukan seperti yang mereka lakukan kemarin dan kembali 'Abbas mendapatkan aku lalu membaringkan badanku seraya berkata kepada Quraisy seperti yang kemarin dia katakan". Ibnu 'Abbas radliallahu 'anhuma berkata; "Itulah awal keIslaman Abu Dzarr, semoga Allah merahmatinya
باب قصة إسلام أبي ذر ৬১/১০. অধ্যায় : আবূ যর গিফারী (রাঃ)-এর ইসলাম গ্রহণের ঘটনা।[1] ৩৫২২. আবূ জামরাহ (রহ.) হতে বর্ণিত। তিনি বলেন, ‘আবদুল্লাহ ইবনু ‘আব্বাস (রাঃ) আমাদেরকে বললেন, আমি কি তোমাদেরকে আবূ যার (রাঃ) এর ইসলাম গ্রহণের ঘটনা বিস্তারিতভাবে বর্ণনা করব? আমরা বললাম হাঁ, অবশ্যই। তিনি বলেন, আবূ যার (রাঃ) বলেছেন, আমি গিফার গোত্রের একজন মানুষ। আমরা জানতে পেলাম মক্কা্য় এক ব্যক্তি আত্মপ্রকাশ করে নিজেকে নবী বলে দাবী করছেন। আমি আমার ভাইকে বললাম, তুমি মক্কা্য় গিয়ে ঐ ব্যক্তির সাথে সাক্ষাৎ ও আলোচনা করে বিস্তারিত খোঁজ-খবর নিয়ে এস। সে রওয়ানা হয়ে গেল এবং মক্কার ঐ লোকটির সঙ্গে সাক্ষাৎ ও আলাপ-আলোচনা করে ফিরে আসলে আমি জিজ্ঞেস করলাম- কী খবর নিয়ে এলে? সে বলল, আল্লাহর কসম! আমি একজন মহান ব্যক্তিকে দেখেছি যিনি সৎকাজের আদেশ এবং মন্দ কাজ হতে নিষেধ করেন। আমি বললাম, তোমার খবরে আমি সন্তুষ্ট হতে পারলাম না। অতঃপর আমি একটি ছড়ি ও এক পাত্র খাবার নিয়ে মক্কার দিকে রওয়ানা হলাম। মক্কা্য় পৌঁছে আমার অবস্থা দাঁড়াল এমন- তিনি আমার পরিচিত নন, কারো নিকট জিজ্ঞেস করাও আমি সমীচীন মনে করি না। তাই আমি যমযমের পানি পান করে মসজিদে থাকতে লাগলাম। একদিন সন্ধ্যা বেলা ‘আলী (রাঃ) আমার নিকট দিয়ে গমনকালে আমার প্রতি ইশারা করে বললেন, মনে হয় লোকটি বিদেশী। আমি বললাম, হাঁ। তিনি বললেন, আমার সঙ্গে আমার বাড়িতে চল। পথেই তিনি আমাকে কোন কিছু জিজ্ঞেস করেননি। আর আমিও ইচ্ছা করে কোন কিছু বলিনি। তাঁর বাড়িতে রাত্রি যাপন করে ভোর বেলায় আবার মসজিদে গেলাম যাতে ঐ ব্যক্তি সম্পর্কে জিজ্ঞেস করব। কিন্তু ওখানে এমন কোন লোক ছিল না যে ঐ ব্যক্তি সম্পর্কে কিছু বলবে। ঐ দিনও ‘আলী (রাঃ) আমার নিকট দিয়ে চলার সময় বললেন, এখনো কি লোকটি তার গন্তব্যস্থল ঠিক করতে পারেনি? আমি বললাম, না। তিনি বললেন, আমার সঙ্গে চল। পথিমধ্যে তিনি আমাকে জিজ্ঞেস করলেন বল, তোমার বিষয় কী? কেন এ শহরে এসেছ? আমি বললাম, যদি আপনি আমার বিষয়টি গোপন রাখার আশ্বাস দেন তাহলে তা আপনাকে বলতে পারি। তিনি বললেন নিশ্চয়ই আমি গোপন করব। আমি বললাম, আমরা জানতে পেরেছি, এখানে এমন এক লোকের আবির্ভাব হয়েছে যিনি নিজেকে নবী বলে দাবী করেন। আমি তাঁর সঙ্গে বিস্তারিত আলাপ আলোচনা করার জন্য আমার ভাইকে পাঠিয়েছিলাম। কিন্তু সে ফেরত গিয়ে আমাকে সন্তোষজনক কোন কিছু বলতে পারেনি। তাই নিজে দেখা করার ইচ্ছা নিয়ে এখানে আগমন করেছি। ‘আলী (রাঃ) বললেন, তুমি সঠিক পথপ্রদর্শক পেয়েছ। আমি এখনই তাঁর কাছে উপস্থিত হবার জন্য রওয়ানা হয়েছি। তুমি আমাকে অনুসরণ কর এবং আমি যে গৃহে প্রবেশ করি তুমিও সে গৃহে প্রবেশ করবে। রাস্তায় যদি তোমার বিপদজনক কোন লোক দেখতে পাই তবে আমি জুতা ঠিক করার অজুহাতে দেয়ালের পার্শ্বে সরে দাঁড়াব, যেন আমি জুতা ঠিক করছি। তুমি কিন্তু চলতেই থাকবে। আলী (রাঃ) পথ চলতে শুরু করলেন। আমিও তাঁর অনুসরণ করে চলতে লাগলাম। তিনি নবী সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম-এর নিকট প্রবেশ করলে, আমিও তাঁর সঙ্গে ঢুকে পড়লাম। আমি বললাম, আমার নিকট ইসলাম পেশ করুন। তিনি পেশ করলেন। আর আমি মুসলিম হয়ে গেলাম। নবী সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম বললেন, হে আবূ যার। এখনকার মত তোমার ইসলাম গ্রহণ গোপন রেখে তোমার দেশে চলে যাও। যখন আমাদের বিজয়ের খবর জানতে পাবে তখন এসো। আমি বললাম, যে আল্লাহ্ আপনাকে সত্য দ্বীনসহ পাঠিয়েছেন তাঁর শপথ! আমি কাফির মুশরিকদের সামনে উচ্চস্বরে তৌহীদের বাণী ঘোষণা করব। (ইবনু ‘আব্বাস (রাঃ) বলেন,) এই কথা বলে তিনি মসজিদে হারামে গমন করলেন, কুরাইশের লোকজনও সেখানে হাজির ছিল। তিনি বললেন, হে কুরাইশগণ! আমি নিশ্চিতভাবে সাক্ষ্য দিচ্ছি যে, আল্লাহ্ ছাড়া কোন মা‘বুদ নেই এবং আমি আরো সাক্ষ্য দিচ্ছি যে, মুহাম্মাদ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম আল্লাহর বান্দা ও তাঁর রাসূল। এতদশ্রবণে কুরাইশগণ বলে উঠল, ধর এই ধর্মত্যাগী লোকটিকে। তারা আমার দিকে এগিয়ে আসল এবং আমাকে নির্মমভাবে প্রহার করতে লাগল; যেন আমি মরে যাই। তখন ‘আব্বাস (রাঃ) আমার নিকট পৌঁছে আমাকে ঘিরে রাখলেন। অতঃপর তিনি কুরাইশকে উদ্দেশ্য করে বললেন, তোমাদের বিপদ অবশ্যম্ভাবী। তোমরা গিফার বংশের জনৈক ব্যক্তিকে হত্যা করতে উদ্যোগী হয়েছ অথচ তোমাদের ব্যবসা-বাণিজ্যের কাফেলাকে গিফার গোত্রের নিকট দিয়ে যাতায়াত করতে হয়। এ কথা শুনে তারা সরে পড়ল। পরদিন ভোরবেলা কাবাগৃহে উপস্থিত হয়ে গতদিনের মতই আমি আমার ইসলাম গ্রহণের পূর্ণ ঘোষণা দিলাম। কুরাইশগণ বলে উঠলো, ধর এই ধর্মত্যাগী লোকটিকে। গতদিনের মত আজও তারা নির্মমভাবে আমাকে মারধর করলো। এই দিনও ‘আব্বাস (রাঃ) এসে আমাকে রক্ষা করলেন এবং কুরাইশদেরকে উদ্দেশ্য করে ঐ দিনের মত বক্তব্য রাখলেন। ইবনু ‘আব্বাস (রাঃ) বলেন, এটাই ছিল আবূ যার (রাঃ)-এর ইসলাম গ্রহণের প্রথম ঘটনা। (৩৮৬১, মুসলিম ৪৪/২৮ হাঃ ২৪৭৪) (আধুনিক প্রকাশনীঃ ৩২৬০, ইসলামিক ফাউন্ডেশনঃ)