391- عن محمد بن إبراهيم، أن أبا هريرة، والسائب القارئ، كانا «يسجدان سجدتي السهو قبل التسليم»،: «حديث ابن بحينة حديث حسن» والعمل على هذا عند بعض أهل العلم وهو قول الشافعي يرى سجدتي السهو كله قبل السلام، ويقول هذا الناسخ لغيره من الأحاديث، ويذكر أن آخر فعل النبي صلى الله عليه وسلم كان على هذا " وقال أحمد، وإسحاق: إذا قام الرجل في الركعتين فإنه يسجد سجدتي السهو قبل السلام، على حديث ابن بحينة «،» وعبد الله ابن بحينة هو عبد الله بن مالك ابن بحينة مالك أبوه، وبحينة أمه "، هكذا أخبرني إسحاق بن منصور، عن علي بن المديني،: " واختلف أهل العلم في سجدتي السهو متى يسجدهما الرجل قبل السلام أو بعده؟ فرأى بعضهم: أن يسجدهما بعد السلام وهو قول سفيان الثوري، وأهل الكوفة «،» وقال بعضهم: يسجدهما قبل السلام وهو قول أكثر الفقهاء من أهل المدينة، مثل يحيى بن سعيد، وربيعة، وغيرهما، وبه يقول الشافعي "، وقال بعضهم: «إذا كانت زيادة في الصلاة فبعد السلام، وإذا كان نقصانا فقبل السلام»، وهو قول مالك بن أنس وقال أحمد: «ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في سجدتي السهو فيستعمل كل على جهته، يرى إذا قام في الركعتين على حديث ابن بحينة فإنه يسجدهما قبل السلام، وإذا صلى الظهر خمسا فإنه يسجدهما بعد السلام، وإذا سلم في الركعتين من الظهر والعصر فإنه يسجدهما بعد السلام، وكل يستعمل على جهته، وكل سهو ليس فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم ذكر فإن سجدتي السهو فيه قبل السلام»، " وقال إسحاق نحو قول أحمد في هذا كله، إلا أنه قال: كل سهو ليس فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم ذكر فإن كانت زيادة في الصلاة يسجدهما بعد السلام، وإن كان نقصانا يسجدهما قبل السلام "
Al-Albani said: Hadith Sahih Isnaad
عبداللہ ابن بحینہ اسدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں کھڑے ہو گئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا، چنانچہ جب نماز پوری کر چکے تو سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری رضی الله عنہما دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے، ۴- اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ان کی رائے ہے کہ سجدہ سہو ہر صورت میں سلام سے پہلے ہے، اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آخر میں اسی پر رہا ہے، ۵- اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو وہ ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے، ۶- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں، ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں، ۷- سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، ۸- اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے، مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ وغیرہ کا اور یہی قول شافعی کا بھی ہے، ۹- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہی قول مالک بن انس کا ہے، ۱۰- اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر اور عصر میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے، اس پر اسی طرح عمل کرے، اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ ۱۱- اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔ مگر فرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل موجود نہ ہو تو اس میں اگر نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے کرے۔