حديث الرسول ﷺ English الإجازة تواصل معنا
الحديث النبوي

حديث ما أنا بقارئ قال فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال اقرأ - صحيح البخاري

صحيح البخاري | (حديث: أول ما بدئ به رسول الله ﷺ من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم )

3- عن عائشة أم المؤمنين أنها قالت: أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء، وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه - وهو التعبد - الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلى أهله، ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها، حتى جاءه الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملك فقال: اقرأ، قال: «ما أنا بقارئ»، قال: " فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني، فقال: اقرأ، قلت: ما أنا بقارئ، فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني، فقال: اقرأ، فقلت: ما أنا بقارئ، فأخذني فغطني الثالثة ثم أرسلني، فقال: {اقرأ باسم ربك الذي خلق.
خلق الإنسان من علق.
اقرأ وربك الأكرم} [العلق: 2] " فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده، فدخل على خديجة بنت خويلد رضي الله عنها، فقال: «زملوني زملوني» فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة وأخبرها الخبر: «لقد خشيت على نفسي» فقالت خديجة: كلا والله ما يخزيك الله أبدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى ابن عم خديجة وكان امرأ تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: يا ابن عم، اسمع من ابن أخيك، فقال له ورقة: يا ابن أخي ماذا ترى؟ فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رأى، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل الله على موسى، يا ليتني فيها جذعا، ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أو مخرجي هم»، قال: نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا.
ثم لم ينشب ورقة أن توفي، وفتر الوحي(1) 4- عن جابر بن عبد الله الأنصاري، قال: وهو يحدث عن فترة الوحي فقال في حديثه: " بينا أنا أمشي إذ سمعت صوتا من السماء، فرفعت بصري، فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والأرض، فرعبت منه، فرجعت فقلت: زملوني زملوني " فأنزل الله تعالى: {يا أيها المدثر.
قم فأنذر} [المدثر: 2] إلى قوله {والرجز فاهجر} [المدثر: 5].
فحمي الوحي وتتابع تابعه عبد الله بن يوسف، وأبو صالح، وتابعه هلال بن رداد، عن الزهري، وقال يونس، ومعمر بوادره(2)


ترجمة الحديث باللغة الانجليزية

Narrated 'Aisha (the mother of the faithful believers):The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Messenger (ﷺ) was in the form of good dreams which came true like bright daylight, and then the love of seclusion was bestowed upon him. He used to go in seclusion in the cave of Hira where he used to worship (Allah alone) continuously for many days before his desire to see his family. He used to take with him the journey food for the stay and then come back to (his wife) Khadija to take his food likewise again till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him and asked him to read. The Prophet (ﷺ) replied, "I do not know how to read." The Prophet (ﷺ) added, "The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read and I replied, 'I do not know how to read.' Thereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read but again I replied, 'I do not know how to read (or what shall I read)?' Thereupon he caught me for the third time and pressed me, and then released me and said, 'Read in the name of your Lord, who has created (all that exists), created man from a clot. Read! And your Lord is the Most Generous." (96.1, 96.2, 96.3) Then Allah's Messenger (ﷺ) returned with the Inspiration and with his heart beating severely. Then he went to Khadija bint Khuwailid and said, "Cover me! Cover me!" They covered him till his fear was over and after that he told her everything that had happened and said, "I fear that something may happen to me." Khadija replied, "Never! By Allah, Allah will never disgrace you. You keep good relations with your kith and kin, help the poor and the destitute, serve your guests generously and assist the deserving calamity-afflicted ones." Khadija then accompanied him to her cousin Waraqa bin Naufal bin Asad bin 'Abdul 'Uzza, who, during the pre-Islamic Period became a Christian and used to write the writing with Hebrew letters. He would write from the Gospel in Hebrew as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to Waraqa, "Listen to the story of your nephew, O my cousin!" Waraqa asked, "O my nephew! What have you seen?" Allah's Messenger (ﷺ) described whatever he had seen. Waraqa said, "This is the same one who keeps the secrets (angel Gabriel) whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out." Allah's Messenger (ﷺ) asked, "Will they drive me out?" Waraqa replied in the affirmative and said, "Anyone (man) who came with something similar to what you have brought was treated with hostility; and if I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly." But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while


ترجمة الحديث باللغة الأوردية

ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق منکشف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ ( انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے ) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس ( معزز راز دان فرشتہ ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ ( حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں ) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔


ترجمة الحديث باللغة التركية

Mu’minlerin annesi Aişe r.anha.’dan (dedilerki:) Resulullah sallallahu aleyhi ve sellem`in ilk vahiy başlangıcı uykuda rü`ya-yı saliha (yani sıdık –doğru- rüya) görmekle olmuştur. Hiçbir rü`ya görmezdi ki sabah aydınlığı gibi aynen çıkardı. Ondan sonra kalbine yalnızlık sevgisi yerleştirildi. Artık Hira (dağın)`daki mağara içinde yalnızlığa çekilir, oradan ailesinin yanına gelinceye kadar sayısı belirli gecelerde tahannüs -ki taabbüd demektir.- eder bir süre sonra) yine azık alıp mağaraya geri giderdi. Sonra yine Hatice'nin yanına dönüp, bir o kadar zaman için azık tedarik ederdi. Nihayet Resulullah sallallahu aleyhi ve sellem`e birgün Hira mağarasında bulunduğu sırada (emr-i) Hak (yani vahiy) geldi. Şöyle ki Ona Melek gelip: (İkra) yani "Oku" dedi. O da: "Ben okumak bilmem." cevabını verdi. Zat-ı Akdesi Risalet-Penahî buyurur ki o zaman Melek beni alıp takatim kesilinceye kadar sıkıştırdı. Sonra beni bırakıp yine: (İkra) dedi. Ben de ona: "Okumak bilmem." dedim. Yine beni alıp ikinci def`a takatim kesilinceye kadar sıkıştırdı. Sonra beni bırakıp yine: (İkra) dedi. Ben de: "Okumak bilmem." dedim. Nihayet beni yine alıp üçüncü def`a sıkıştırdı. Sonra beni bıraktı:


ترجمة الحديث باللغة الإندونيسية

Telah menceritakan kepada kami [Yahya bin Bukair] berkata, Telah menceritakan kepada kami dari [Al Laits] dari ['Uqail] dari [Ibnu Syihab] dari ['Urwah bin Az Zubair] dari [Aisyah] -Ibu Kaum Mu'minin-, bahwasanya dia berkata: "Permulaaan wahyu yang datang kepada Rasulullah shallallahu 'alaihi wasallam adalah dengan mimpi yang benar dalam tidur. Dan tidaklah Beliau bermimpi kecuali datang seperti cahaya subuh. Kemudian Beliau dianugerahi kecintaan untuk menyendiri, lalu Beliau memilih gua Hiro dan bertahannuts yaitu 'ibadah di malam hari dalam beberapa waktu lamanya sebelum kemudian kembali kepada keluarganya guna mempersiapkan bekal untuk bertahannuts kembali. Kemudian Beliau menemui Khadijah mempersiapkan bekal. Sampai akhirnya datang Al Haq saat Beliau di gua Hiro, Malaikat datang seraya berkata: "Bacalah?" Beliau menjawab: "Aku tidak bisa baca". Nabi shallallahu 'alaihi wasallam menjelaskan: Maka Malaikat itu memegangku dan memelukku sangat kuat kemudian melepaskanku dan berkata lagi: "Bacalah!" Beliau menjawab: "Aku tidak bisa baca". Maka Malaikat itu memegangku dan memelukku sangat kuat kemudian melepaskanku dan berkata lagi: "Bacalah!". Beliau menjawab: "Aku tidak bisa baca". Malaikat itu memegangku kembali dan memelukku untuk ketiga kalinya dengan sangat kuat lalu melepaskanku, dan berkata lagi: (Bacalah dengan (menyebut) nama Tuhanmu yang Menciptakan, Dia Telah menciptakan manusia dari segumpal darah. Bacalah, dan Tuhanmulah yang Maha Pemurah)." Nabi shallallahu 'alaihi wasallam kembali kepada keluarganya dengan membawa kalimat wahyu tadi dalam keadaan gelisah. Beliau menemui Khadijah binti Khawailidh seraya berkata: "Selimuti aku, selimuti aku!". Beliau pun diselimuti hingga hilang ketakutannya. Lalu Beliau menceritakan peristiwa yang terjadi kepada Khadijah: "Aku mengkhawatirkan diriku". Maka Khadijah berkata: "Demi Allah, Allah tidak akan mencelakakanmu selamanya, karena engkau adalah orang yang menyambung silaturrahim." Khadijah kemudian mengajak Beliau untuk bertemu dengan Waroqoh bin Naufal bin Asad bin Abdul 'Uzza, putra paman Khadijah, yang beragama Nasrani di masa Jahiliyyah, dia juga menulis buku dalam bahasa Ibrani, juga menulis Kitab Injil dalam Bahasa Ibrani dengan izin Allah. Saat itu Waroqoh sudah tua dan matanya buta. Khadijah berkata: "Wahai putra pamanku, dengarkanlah apa yang akan disampaikan oleh putra saudaramu ini". Waroqoh berkata: "Wahai putra saudaraku, apa yang sudah kamu alami". Maka Rasulullah shallallahu 'alaihi wasallam menuturkan peristiwa yang dialaminya. Waroqoh berkata: "Ini adalah Namus, seperti yang pernah Allah turunkan kepada Musa. Duhai seandainya aku masih muda dan aku masih hidup saat kamu nanti diusir oleh kaummu". Rasulullah shallallahu 'alaihi wasallam bertanya: "Apakah aku akan diusir mereka?" Waroqoh menjawab: "Iya. Karena tidak ada satu orang pun yang datang dengan membawa seperti apa yang kamu bawa ini kecuali akan disakiti (dimusuhi). Seandainya aku ada saat kejadian itu, pasti aku akan menolongmu dengan sekemampuanku". Waroqoh tidak mengalami peristiwa yang diyakininya tersebut karena lebih dahulu meninggal dunia pada masa fatroh (kekosongan) wahyu. [Ibnu Syihab] berkata; telah mengabarkan kepadaku [Abu Salamah bin Abdurrahman] bahwa [Jabir bin Abdullah Al Anshari] bertutur tentang kekosongan wahyu, sebagaimana yang Rasulullah shallallahu 'alaihi wasallam ceritakan: "Ketika sedang berjalan aku mendengar suara dari langit, aku memandang ke arahnya dan ternyata Malaikat yang pernah datang kepadaku di gua Hiro, duduk di atas kursi antara langit dan bumi. Aku pun ketakutan dan pulang, dan berkata: "Selimuti aku. Selimuti aku". Maka Allah Ta'ala menurunkan wahyu: (Wahai orang yang berselimut) sampai firman Allah (dan berhala-berhala tinggalkanlah). Sejak saat itu wahyu terus turun berkesinambungan." Hadits ini juga diriwayatkan oleh [Abdullah bin Yusuf] dan [Abu Shalih] juga oleh [Hilal bin Raddad] dari [Az Zuhri]. Dan [Yunus] berkata; dan [Ma'mar] menyepakati bahwa dia mendapatkannya dari Az Zuhri


ترجمة الحديث باللغة البنغالية

উম্মুল মু’মিনীন ‘আয়িশাহ (রাঃ) হতে বর্ণিত। তিনি বলেন, আল্লাহর রাসূল সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম -এর নিকট সর্বপ্রথম যে ওয়াহী আসে, তা ছিল নিদ্রাবস্থায় বাস্তব স্বপ্নরূপে। যে স্বপ্নই তিনি দেখতেন তা একেবারে প্রভাতের আলোর ন্যায় প্রকাশিত হতো। অতঃপর তাঁর নিকট নির্জনতা পছন্দনীয় হয়ে দাঁড়ায় এবং তিনি ‘হেরা’র গুহায় নির্জনে অবস্থান করতেন। আপন পরিবারের নিকট ফিরে এসে কিছু খাদ্যসামগ্রী সঙ্গে নিয়ে যাওয়ার পূর্বে- এভাবে সেখানে তিনি এক নাগাড়ে বেশ কয়েক দিন ‘ইবাদাতে মগ্ন থাকতেন। অতঃপর খাদীজাহ (রাঃ)-এর নিকট ফিরে এসে আবার একই সময়ের জন্য কিছু খাদ্যদ্রব্য নিয়ে যেতেন। এভাবে ‘হেরা’ গুহায় অবস্থানকালে তাঁর নিকট ওয়াহী আসলো। তাঁর নিকট ফেরেশতা এসে বললো, ‘পাঠ করুন’। আল্লাহর রাসূল সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম বলেনঃ [‘‘আমি বললাম, ‘আমি পড়তে জানি না।] তিনি (সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম) বলেনঃ [অতঃপর সে আমাকে জড়িয়ে ধরে এমনভাবে চাপ দিলো যে, আমার খুব কষ্ট হলো। অতঃপর সে আমাকে ছেড়ে দিয়ে বললো, ‘পাঠ করুন’। আমি বললামঃ আমি তো পড়তে জানি না।’ সে দ্বিতীয়বার আমাকে জড়িয়ে ধরে এমনভাবে চাপ দিলো যে, আমার খুব কষ্ট হলো। অতঃপর সে আমাকে ছেড়ে দিয়ে বললোঃ ‘পাঠ করুন’। আমি উত্তর দিলাম, ‘আমি তো পড়তে জানি না।’ আল্লাহর রাসূল সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম বলেন, অতঃপর তৃতীয়বারে তিনি আমাকে জড়িয়ে ধরে চাপ দিলেন। তারপর ছেড়ে দিয়ে বললেন, ‘‘পাঠ করুন আপনার রবের নামে, যিনি সৃষ্টি করেছেন। যিনি সৃষ্টি করেছেন মানুষকে জমাট রক্ত পিন্ড থেকে, পাঠ করুন, আর আপনার রব অতিশয় দয়ালু’’- (সূরাহ্ ‘আলাক্ব ৯৬/১-৩)। অতঃপর এ আয়াত নিয়ে আল্লাহর রাসূল সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম -প্রত্যাবর্তন করলেন। তাঁর হৃদয় তখন কাঁপছিল। তিনি খাদীজাহ বিন্তু খুওয়ায়লিদের নিকট এসে বললেন, ‘আমাকে চাদর দ্বারা আবৃত কর’, ‘আমাকে চাদর দ্বারা আবৃত কর।’ তাঁরা তাঁকে চাদর দ্বারা আবৃত করলেন। এমনকি তাঁর শংকা দূর হলো। তখন তিনি খাদীজাহ (রাঃ)-এর নিকট ঘটনাবৃত্তান্ত জানিয়ে তাঁকে বললেন, আমি আমার নিজেকে নিয়ে শংকা বোধ করছি। খাদীজাহ (রাঃ) বললেন, আল্লাহর কসম, কখনই নয়। আল্লাহ্ আপনাকে কখনও লাঞ্ছিত করবেন না। আপনি তো আত্মীয়-স্বজনের সঙ্গে সদাচরণ করেন, অসহায় দুস্থদের দায়িত্ব বহন করেন, নিঃস্বকে সহযোগিতা করেন, মেহমানের আপ্যায়ন করেন এবং হক পথের দুর্দশাগ্রস্তকে সাহায্য করেন। অতঃপর তাঁকে নিয়ে খাদীজাহ (রাঃ) তাঁর চাচাতো ভাই ওয়ারাকাহ ইবনু নাওফাল ইবনু ‘আবদুল আসাদ ইবনু ‘আবদুল ‘উযযাহ’র নিকট গেলেন, যিনি অন্ধকার যুগে ‘ঈসায়ী ধর্ম গ্রহণ করেছিলেন। তিনি ইবরানী ভাষায় লিখতে পারতেন এবং আল্লাহর তাওফীক অনুযায়ী ইবরানী ভাষায় ইঞ্জিল হতে ভাষান্তর করতেন। তিনি ছিলেন অতিবৃদ্ধ এবং অন্ধ হয়ে গিয়েছিলেন। খাদীজাহ (রাঃ) তাঁকে বললেন, ‘হে চাচাতো ভাই! আপনার ভাতিজার কথা শুনুন।’ ওয়ারাকাহ তাঁকে জিজ্ঞেস করলেন, ‘ভাতিজা! তুমি কী দেখ?’ আল্লাহর রাসূল সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম যা দেখেছিলেন, সবই বর্ণনা করলেন। তখন ওয়ারাকাহ তাঁকে বললেন, এটা সেই বার্তাবাহক যাঁকে আল্লাহ মূসা (আঃ)-এর নিকট পাঠিয়েছিলেন। আফসোস! আমি যদি সেদিন থাকতাম। আফসোস! আমি যদি সেদিন জীবিত থাকতাম, যেদিন তোমার কওম তোমাকে বহিষ্কার করবে।’ আল্লাহর রাসূল সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম বললেন, [‘তারা কি আমাকে বের করে দেবে?’] তিনি বললেন, ‘হ্যাঁ, তুমি যা নিয়ে এসেছো অনুরূপ (ওয়াহী) কিছু যিনিই নিয়ে এসেছেন তাঁর সঙ্গেই বৈরিতাপূর্ণ আচরণ করা হয়েছে। সেদিন যদি আমি থাকি, তবে তোমাকে জোরালোভাবে সাহায্য করব।’ এর কিছুদিন পর ওয়ারাকাহ (রাঃ) ইন্তিকাল করেন। আর ওয়াহীর বিরতি ঘটে। (৩৩৯২, ৪৯৫৩, ৪৯৫৫, ৪৯৫৬, ৪৯৫৭, ৬৯৮২; মুসলিম ১/৭৩ হাঃ ১৬০, আহমাদ ২৬০১৮) (আধুনিক প্রকাশনীঃ ৩, ইসলামিক ফাউন্ডেশনঃ)



(1)أخرجه مسلم في الإيمان باب بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم رقم 160 (الصالحة) الصادقة وهي التي يجري في اليقظة ما يوافقها.
(فلق الصبح) ضياؤه ونوره ويقال هذا في الشيء الواضح البين.
(الخلاء) الانفراد.
(بغار حراء) الغار هو النقب في الجبل وحراء اسم لجبل معروف في مكة.
(ينزع) يرجع.
(ما أنا بقارىء) لا أعرف القراءة ولا أحسنها.
(فغطني) ضمني وعصرني حتى حبس نفسي ومثله غتني.
(الجهد) غاية وسعي.
(أرسلني) أطلقني.
(علق) جمع علقة وهي المني بعد أن يتحول إلى دم غليظ متجمد والآيات المذكورة أول ما نزل من القرآن الكريم وهي أوائل سورة العلق.
(يرجف فؤاده) يخفق قلبه ويتحرك بشدة.
(زملوني) لفوني وغطوني.
(الروع) الفزع.
(ما يخزيك) لا يذلك ولا يضيعك.
(لتصل الرحم) تكرم القرابة وتواسيهم.
(تحمل الكل) تقو بشأن من لا يستقل بأمره ليتم وغيره وتتوسع بمن فيه ثقل وغلاظة.
(تكسب المعودم) تتبرع بالمال لمن عدمه وتعطي الناس ما لا يجدونه عند غيرك.
(تقري الضيف) تهيىء له القرى وهو ما يقدم للضيف من طعام وشراب.
(نوائب الحق) النوائب جمع نائبة وهي ما ينزل بالإنسان من المهمات وأضيفت إلى الحق لأنها تكون في الحق والباطل.
(تنصر) ترك عبادة الأوثان واعتنق النصرانية.
(الناموس) هو صاحب السر والمراد جبريل عليه السلام سمي بذلك لاختصاصه بالوحي.
(فيها) في حين ظهور نبوتك.
(جذع) شاب والجذع في الأصل الصغير من البهائم ثم استعير للشاب من الإنسان.
(يومك) يوم إخراجك أو يوم ظهور نبوتك وانتشار دينك.
(مؤزرا) قويا من الأزر وهو القوة.
(ينشب) يلبث.
(فتر الوحي) تأخر عن النزول مدة من الزمن (2) أخرجه مسلم في الإيمان باب بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم رقم 161 (المدثر) المتلفف بثيابه.
(والرجز فاهجر) الرجز في اللغة ألذنب والإثن والعذاب والمراد به هنا الأوثان وسميت رجزا لأنها سببه والهجر الترك والمعنى بالغ واستمر في تركك للأوثان.
والآيات أوائل سورة المدثر.
(فحمي الوحي وتتابع) كثر نزوله ومجيئه.
(تابعه) أي تابع يحيى بن بكير الحديث الثالث فكان الأنسب أن تأتي هذه المتابعة قبل حديث جابر رضي الله عنه.
(بوادره) أي قال ترجف بوادره بدل يرجف فؤاده جمع بادرة وهي اللحمة التي بين المنكب والعنق وهي تضطرب عند فزع الإنسان