1464-
عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من أعتق شركا له في عبد.
فكان له مال يبلغ ثمن العبد، قوم عليه قيمة العدل.
فأعطى شركاءه حصصهم.
وعتق عليه العبد.
وإلا فقد عتق منه ما عتق»
Malik related to me from Nafi from Abdullah ibn Umar that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace,said, "If a man frees his share of a slave and has enough money to cover the full price of the slave justly evaluated for him, he must buy out his partners so that the slave is completely freed. If he doesn't have the money, he partially frees him
Salim al-Hilali said: Hadith Sahih
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مشترک غلا میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے اور اس شخص کے پاس انتا مال کہ غلام کی قیمت دے سکے تو اس غلام کی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو موافق حصہ ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جس قدر اس غلام میں سے آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا ۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مولیٰ اگر اپنے مرنے کے بعد اپنے غالم کا ایک حصہ جیسے ثلث یاربع یا نصف آزاد کر جائے تو بعد مولیٰ کے مرجانے کے اسی قدر حصہ جتنامولیٰ نے آزاد کیا تھا آزاد ہوجائے گا کیونکہ اس حصے کی آزادی بعد مولیٰ کے مرجانے کے لازم ہوئی اور جب تک مولیٰ ازندہ تھا اس کو اختیار تھا جب مر گیا تو موافق اس کی وصیت کے اسی قدر حصہ آزاد ہوگا اور باقی غلام آزاد نہ ہوگا اس واسطے کہ وہ غیر کی ملک ہوگا تو باقی غلام غیر کی طرف سے کیونکر آزاد ہوگا نہ اس نے آزادی شروع کی اور نہ ثابت کی اور نہ اس کے واسطے ولاء ہے بلکہ یہ میت کا فعل ہے اسی نے آزاد کیا اور اسی نے اپنے لئے ولاء ثابت کی تو غیر کے مالک میں کیونکر درست ہوگا البتہ اگر یہ وصیت کر جائے کہ باقی غلام بھی اس کے مال میں سے آزاد کردیا جائے گا اور ثلث مال میں سے وہ غلام آزاد ہوسکتا ہو تو آزاد ہوجائے گا پھر اس کے شریکوں یاوارثوں کو تعرض نہیں پہنچتا کیونکہ ان کا کچھ ضرر نہیں ۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی بیماری میں تہائی غلام آزاد کردیا تو وہ ثلث مال میں سے پورا آزاد ہوجائے گا کیونکہ یہ مثل اس شخص کے نہیں ہے جو اپنی تہائی غلام کی آزادی اپنی موت پر معلق کردے اس واسطے کہ اس کی آزادی قطعی نہیں جب تک زندہ ہے رجوع کرسکتا ہے اور جس نے اپنے مرض میں تہائی غلام قطعا آزاد کردیا اگر وہ زندہ رہ گیا تو کل غلام آزاد ہوجائے گا کیونکہ میت کا تہائی مال میں وصیت درست ہے جیسے صحیح سالم کا تصرف کل مالک میں درست ہے۔ کہا مالک نے جس شخص نے اپنا غلام قطعی طور پر آزاد کردیا یہاں تک کہ اس کی شہادت ہوگئی اور اس کی حرمت پوری ہوگئی اور اس کی میراث ثابت ہوگئی اب اس کے مولیٰ کو نہیں پہنچتاکہ اس پر کسی مال یاخدمت کی شرط لگادے یا اس پر کچھ غلامی کا بوجھ ڈالے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنا حصہ غلام میں سے آزاد کردے تو اس کی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو موافق حصہ کر آزاد کرے اور غلام اس کے اوپر آزاد ہوجائے گا پس جس صورت میں وہ غلام خاص اسی کی ملک ہے تو زیادہ تر اس کی آزادی پوری کرنے کا حقدار ہوگا اور غلامی کا بوجھ اس پر نہ رکھے سکے گا۔
Telah menceritakan kepadaku Malik dari [Nafi'] dari [Abdullah bin Umar] bahwa Rasulullah shallallahu 'alaihi wasallam bersabda: "Barangsiapa memerdekakan bagian miliknya dari budak yang dimiliki secara berserikat, padahal ia masih mempunyai uang senilai harga budak tersebut, maka harga budak itu ditaksir dengan harga umum. Lalu hendaklah ia berikan bagian orang-orang yang berserikat, setelah itu barulah ia dapat memerdekakan budak tersebut. Namun jika tidak, berarti ia hanya membebaskan apa yang menjadi bagiannya saja
রেওয়ায়ত ২. মালিক (রহঃ) বলেনঃ যে ব্যক্তি তাহার দাসকে আযাদ করিয়াছে এবং পরিষ্কারভাবে আযাদ করিয়াছে। যেমন সে ক্রীতদাসের সাক্ষ্য বৈধ হয়, তাহার স্বত্বাধিকার প্রতিষ্ঠিত হয়। এবং তাহার মর্যাদা পূর্ণতা লাভ করে, তবে গোলামের উপর যেরূপ শর্তারোপ করা হয় তাহার কর্তা তাহার উপর অনুরূপ কোন শর্তারোপ করিতে পারবে না এবং উহার উপর গোলামির কোন কিছু চাপাইতেও পারবে না। কারণ রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম বলিয়াছেন, যে ব্যক্তি তাহার অংশ আযাদ করিয়াছে গোলাম হইতে তাহার উপর সেই গোলামের (অবশিষ্ট অংশের) মূল্য ধার্য করা হইবে। তারপর শরীকদিগকে তাহাদের অংশ প্রদান করা হইবে, তাহার পক্ষে গোলাম আযাদ হইয়া যাইবে। মালিক (রহঃ) বলেনঃ যদি গোলামে অন্য কাহারো অংশ না থাকে, তবে আযাদী পূর্ণ করার জন্য তিনি অধিক হকদার হইবেন এবং সেই আযাদীতে কোন প্রকার দাসত্ব মিশ্রিত থাকিবে না।
أخرجه الشيخان