93-
عن يحيى بن يعمر، قال: كان أول من قال في القدر بالبصرة معبد الجهني، فانطلقت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين - أو معتمرين - فقلنا: لو لقينا أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسألناه عما يقول هؤلاء في القدر، فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد، فاكتنفته أنا وصاحبي أحدنا عن يمينه، والآخر عن شماله، فظننت أن صاحبي سيكل الكلام إلي، فقلت --: أبا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن، ويتقفرون العلم، وذكر من شأنهم، وأنهم يزعمون أن لا قدر، وأن الأمر أنف، قال: «فإذا لقيت أولئك فأخبرهم أني بريء منهم، وأنهم برآء مني»، والذي يحلف به عبد الله بن عمر «لو أن لأحدهم مثل أحد ذهبا، فأنفقه ما قبل الله منه حتى يؤمن بالقدر» ثم قال: حدثني أبي عمر بن الخطاب قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد الشعر، لا يرى عليه أثر السفر، ولا يعرفه منا أحد، حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فأسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، وقال: يا محمد أخبرني عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا»، قال: صدقت، قال: فعجبنا له يسأله، ويصدقه، قال: فأخبرني عن الإيمان، قال: «أن تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره»، قال: صدقت، قال: فأخبرني عن الإحسان، قال: «أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك»، قال: فأخبرني عن الساعة، قال: «ما المسئول عنها بأعلم من السائل» قال: فأخبرني عن أمارتها، قال: «أن تلد الأمة ربتها، وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان»، قال: ثم انطلق فلبثت مليا، ثم قال لي: «يا عمر أتدري من السائل؟» قلت: الله ورسوله أعلم، قال: «فإنه جبريل أتاكم يعلمكم دينكم»حدثني محمد بن عبيد الغبري، وأبو كامل الجحدري، وأحمد بن عبدة قالوا: حدثنا حماد بن زيد، عن مطر الوراق، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، قال: لما تكلم معبد بما تكلم به في شأن القدر أنكرنا ذلك، قال: فحججت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حجة، وساقوا الحديث بمعنى حديث كهمس وإسناده، وفيه بعض زيادة ونقصان أحرف.
وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا عثمان بن غياث، حدثنا عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، وحميد بن عبد الرحمن قالا: لقينا عبد الله بن عمر، فذكرنا القدر، وما يقولون فيه، فاقتص الحديث كنحو حديثهم، عن عمر رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وفيه شيء من زيادة وقد نقص منه شيئا.
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا المعتمر، عن أبيه، عن يحيى بن يعمر، عن ابن عمر، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحو حديثهم
It is narrated on the authority of Yahya b. Ya'mur that the first man who discussed qadr (Divine Decree) in Basra was Ma'bad al-Juhani. I along with Humaid b. 'Abdur-Rahman Himyari set out for pilgrimage or for 'Umrah and said:Should it so happen that we come into contact with one of the Companions of the Messenger of Allah (peace be upon him) we shall ask him about what is talked about taqdir (Divine Decree). Accidentally we came across Abdullah ibn Umar ibn al-Khattab, while he was entering the mosque. My companion and I surrounded him. One of us (stood) on his right and the other stood on his left. I expected that my companion would authorize me to speak. I therefore said: Abu Abdur Rahman! There have appeared some people in our land who recite the Qur'an and pursue knowledge. And then after talking about their affairs, added: They (such people) claim that there is no such thing as Divine Decree and events are not predestined. He (Abdullah ibn Umar) said: When you happen to meet such people tell them that I have nothing to do with them and they have nothing to do with me. And verily they are in no way responsible for my (belief). Abdullah ibn Umar swore by Him (the Lord) (and said): If any one of them (who does not believe in the Divine Decree) had with him gold equal to the bulk of (the mountain) Uhud and spent it (in the way of Allah), Allah would not accept it unless he affirmed his faith in Divine Decree. He further said: My father, Umar ibn al-Khattab, told me: One day we were sitting in the company of Allah's Apostle (peace be upon him) when there appeared before us a man dressed in pure white clothes, his hair extraordinarily black. There were no signs of travel on him. None amongst us recognized him. At last he sat with the Apostle (peace be upon him) He knelt before him placed his palms on his thighs and said: Muhammad, inform me about al-Islam. The Messenger of Allah (peace be upon him) said: Al-Islam implies that you testify that there is no god but Allah and that Muhammad is the messenger of Allah, and you establish prayer, pay Zakat, observe the fast of Ramadan, and perform pilgrimage to the (House) if you are solvent enough (to bear the expense of) the journey. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (Umar ibn al-Khattab) said: It amazed us that he would put the question and then he would himself verify the truth. He (the inquirer) said: Inform me about Iman (faith). He (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, in His angels, in His Books, in His Apostles, in the Day of Judgment, and you affirm your faith in the Divine Decree about good and evil. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (the inquirer) again said: Inform me about al-Ihsan (performance of good deeds). He (the Holy Prophet) said: That you worship Allah as if you are seeing Him, for though you don't see Him, He, verily, sees you. He (the enquirer) again said: Inform me about the hour (of the Doom). He (the Holy Prophet) remarked: One who is asked knows no more than the one who is inquiring (about it). He (the inquirer) said: Tell me some of its indications. He (the Holy Prophet) said: That the slave-girl will give birth to her mistress and master, that you will find barefooted, destitute goat-herds vying with one another in the construction of magnificent buildings. He (the narrator, Umar ibn al-Khattab) said: Then he (the inquirer) went on his way but I stayed with him (the Holy Prophet) for a long while. He then, said to me: Umar, do you know who this inquirer was? I replied: Allah and His Apostle knows best. He (the Holy Prophet) remarked: He was Gabriel (the angel). He came to you in order to instruct you in matters of religion
کہمس سے ا بن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سےروایت کی ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی ، معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کے درمیان میں لے لیا ، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کامعاملہ ) میرے سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے ابو عبدالرحمن ! ( یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں ، ( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کا اس کاعلم ہے ۔ ) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کو پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ، پھر کہا : مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا : ایک دن ہم رسول ا للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے ہاتھ آپﷺ کی را نوں پر رکھ دیے ، اور کہا : اے محمد ( ﷺ ) ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز کا اہتمام کرو ، زکاۃ ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ ( طے کرنے ) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور ( خود ہی ) آپ کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخری دن ( یوم قیامت ) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ ( پھر ) اس نے کہا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’جس سے اس ( قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے ، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ ( علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، محتاج ، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ‘ ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا : پھر وہ سائل چلا گیا ، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : ’’اے عمر !تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’وہ جبرئیل تھے ، تمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے ۔ ‘ ‘
Bana Ebu Hayseme Zuheyr b. Harb tahdis etti, bize Veki', Kehmes'den tahdis etti. O Abdullah b. Bureyde'den, o Yahya b. Ya'mer'den (H) Bize Ubeydullah b. Muaz el-Anberi de tahdis etti -ki bu onun (naklettiği) hadisidir-, bize babam tahdis etti, bize Kehmes, İbn Bureyde'den tahdis etti. O Yahya b. Ya'mer'den şöyle dediğini nakletti: - Kader hakkında ilk konuşan kişi Basra'da Ma'bed el-Cuheni oldu. Ben ve Humeyd b. Abdurrahman el-Himyeri hac -ya da umre- yapmak üzere gitmiştik. Kendi kendimize: Rasulullah (Sallallahu aleyhi ve Sellem)'in ashabından birisi ile karşılaşsak da bunların kader hakkında söylediklerine dair ona (kanaatini) sorsak, dedik. Abdullah b. Ömer b. el-Hattab'a mescide girerken rastgeldik. Ben ve arkadaşım birimiz sağından, diğerimiz solundan olmak üzere etrafında durduk. Arkadaşımın sözü bana bırakacağını düşünerek: - Ey Ebu Abdurrahman, dedim. Bizim oralarda birtakım insanlar çıktı. Bunlar Kur'an'ı okuyorlar, ilmi araştırıyorlar -ve böyle diyerek onların durumlarını zikretti.- Bununla birlikte onlar kader diye bir şey olmadığını, olayların (Allah'ın ezeli ilmi söz konusu olmaksızın) kendiliğinden meydana geldiğini iddia ediyorlar. (İbn Ömer) dedi ki: Bunlarla karşılaşacak olursan benim onlardan uzak olduğumu, onların da benden uzak olduklarını onlara haber ver. Abdullah b. Ömer'in adına yemin ettiği zat hakkı için eğer onlardan (1/37a) birinin Uhud dağı gibi altını bulunsa ve onu (Allah yolunda) infak etse kadere iman etmedikçe Allah ondan (infakını) kabul etmez. Sonra şunları ekledi: -Babam Ömer b. el-Hattab bana tahdis edip dedi ki: Bir gün Rasulullah (Sallallahu aleyhi ve Sellem)'in huzurunda idik. Birden yanımıza elbiseleri oldukça beyaz, saçı oldukça siyah, üzerinde yolculuk izleri görülmeyen ve aramızdan kimsenin de tanımadığı bir adam çıkageldi. Nebi (Sallallahu aleyhi ve Sellem)'in yanına oturuverdi, dizlerini onun dizlerine dayadı. Ellerini uylukları üzerine koydu ve: - Ey Muhammed, bana İslam'dan haber ver, dedi. RasuluIlah (Sallallahu aleyhi ve Sellem): "İslam Allah'tan başka hiçbir ilah olmadığına, Muhammed'in Allah'ın Rasulü olduğuna şahadet etmen, namazı dosdoğru kılman, zekatı vermen, Ramazan ayı orucunu tutman, oraya gitmek için yol bulabildiğin takdirde beyti haccetmendir" buyurdu. Adam: Doğru söyledin, dedi. (Ömer): Biz onun bu yaptığına hayret ettik. Hem ona soru soruyor, hem ona doğru söylüyorsun diyordu, dedi. Sonra adam: Bana imandan haber ver, dedi. Allah Rasulü (Sallallahu aleyhi ve Sellem): ''Allah'a, meleklerine, kitaplarına, rasullerine, ahiret gününe iman etmen, bir de hayrıyla, şerriyle kadere iman etmendir" buyurdu. (Adam): Doğru söyledin, dedi. Sonra: Bana ihsandan haber ver, dedi. Allah Rasulü (Sallallahu aleyhi ve Sellem): ''Allah'a onu görüyormuşsun gibi ibadet etmendir. Sen onu görmüyorsan da şüphesiz o seni görür" buyurdu. Adam: Bana kıyamet'ten haber ver dedi. Allah Rasulü (Sallallahu aleyhi ve Sellem): "Bu hususta kendisine soru sorulan sorandan daha bilgili değildir" buyurdu. Adam: O halde bana onun alamet(ler)ini haber ver, dedi. Allah Rasulü (Sallallahu aleyhi ve Sellem): "Cariyenin kendi hanımefendisini doğurması, yalınayak, çıplak, yoksul koyun çobanı kimselerin uzun (yüksek) bina yapmakta birbirleriyle yarıştıklarını görmendir" buyurdu. (Ömer) dedi ki: Sonra adam gitti. Uzunca bir süre bekledim sonra (Allah Rasulü) bana: "Ey Ömer, o soru soran kimdi biliyor musun" buyurdu. Ben: Allah ve Rasulü en iyi bilendir, dedim. O: "O (gelen) Cibril'di. Size dininizi öğretmek üzere gelmişti" buyurdu. Diğer tahric: Ebu Davud, 4695; Tırmizi, 2610; Nesai, 5005; İbn Mace, 63; Tuhfetu'l-Eşraf
Telah menceritakan kepadaku [Abu Khaitsamah Zuhair bin Harb] telah menceritakan kepada kami [Waki'] dari [Kahmas] dari [Abdullah bin Buraidah] dari [Yahya bin Ya'mar]. (dalam riwayat lain disebutkan) Dan telah menceritakan kepada kami [Ubaidullah bin Mu'adz al-'Anbari] dan ini haditsnya, telah menceritakan kepada kami [Bapakku] telah menceritakan kepada kami [Kahmas] dari [Ibnu Buraidah] dari [Yahya bin Ya'mar] dia berkata, "Orang yang pertama kali membahas takdir di Bashrah adalah Ma'bad al-Juhani, maka aku dan Humaid bin Abdurrahman al-Himyari bertolak haji atau umrah, maka kami berkata, 'Seandainya kami bertemu dengan salah seorang sahabat Rasulullah shallallahu 'alaihi wasallam, maka kami akan bertanya kepadanya tentang sesuatu yang mereka katakan berkaitan dengan takdir.' Maka [Abdullah bin Umar] diberikan taufik (oleh Allah) untuk kami, sedangkan dia masuk masjid. Lalu aku dan temanku menghadangnya. Salah seorang dari kami di sebelah kanannya dan yang lain di sebelah kirinya. Lalu aku mengira bahwa temanku akan mewakilkan pembicaraan kepadaku, maka aku berkata, 'Wahai Abu Abdurrahman, sesungguhnya nampak di hadapan kami suatu kaum membaca al-Qur'an dan mencari ilmu lalu mengklaim bahwa tidak ada takdir, dan perkaranya adalah baru (tidak didahului oleh takdir dan ilmu Allah).' Maka [Abdullah bin Umar] menjawab, 'Apabila kamu bertemu orang-orang tersebut, maka kabarkanlah kepada mereka bahwa saya berlepas diri dari mereka, dan bahwa mereka berlepas diri dariku. Dan demi Dzat yang mana hamba Allah bersumpah dengan-Nya, kalau seandainya salah seorang dari kalian menafkahkan emas seperti gunung Uhud, niscaya sedekahnya tidak akan diterima hingga dia beriman kepada takdir baik dan buruk.' Dia berkata, 'Kemudian dia mulai menceritakan hadits seraya berkata, ['Umar bin al-Khaththab] berkata, 'Dahulu kami pernah berada di sisi Rasulullah shallallahu 'alaihi wasallam, lalu datanglah seorang laki-laki yang bajunya sangat putih, rambutnya sangat hitam, tidak tampak padanya bekas-bekas perjalanan. Tidak seorang pun dari kami mengenalnya, hingga dia mendatangi Nabi Shallallahu 'Alaihi Wasalam lalu menyandarkan lututnya pada lutut Nabi Shallallahu 'Alaihi Wasalam, kemudian ia berkata, 'Wahai Muhammad, kabarkanlah kepadaku tentang Islam? ' Rasulullah Shallallahu 'Alaihi Wasalam menjawab: "Kesaksian bahwa tidak ada tuhan (yang berhak disembah) selain Allah dan bahwa Muhammad adalah hamba dan utusan-Nya, mendirikan shalat, menunaikan zakat, dan puasa Ramadlan, serta haji ke Baitullah jika kamu mampu bepergian kepadanya.' Dia berkata, 'Kamu benar.' Umar berkata, 'Maka kami kaget terhadapnya karena dia menanyakannya dan membenarkannya.' Dia bertanya lagi, 'Kabarkanlah kepadaku tentang iman itu? ' Beliau menjawab: "Kamu beriman kepada Allah, malaikat-malaikat-Nya, kitab-kitab-Nya, para Rasul-Nya, hari akhir, dan takdir baik dan buruk." Dia berkata, 'Kamu benar.' Dia bertanya, 'Kabarkanlah kepadaku tentang ihsan itu? ' Beliau menjawab: "Kamu menyembah Allah seakan-akan kamu melihat-Nya, maka jika kamu tidak melihat-Nya, maka sesungguhnya Dia melihatmu." Dia bertanya lagi, 'Kapankah hari akhir itu? ' Beliau menjawab: "Tidaklah orang yang ditanya itu lebih mengetahui daripada orang yang bertanya." Dia bertanya, 'Lalu kabarkanlah kepadaku tentang tanda-tandanya? ' Beliau menjawab: "Apabila seorang budak melahirkan (anak) tuan-Nya, dan kamu melihat orang yang tidak beralas kaki, telanjang, miskin, penggembala kambing, namun bermegah-megahan dalam membangun bangunan." Kemudian dia bertolak pergi. Maka aku tetap saja heran kemudian beliau berkata; "Wahai Umar, apakah kamu tahu siapa penanya tersebut?" Aku menjawab, 'Allah dan Rasul-Nya lebih tahu.' Beliau bersabda: "Itulah jibril, dia mendatangi kalian untuk mengajarkan kepada kalian tentang pengetahuan agama kalian'." Telah menceritakan kepada kami [Muhammad bin Ubaid al-Ghubari] dan [Abu Kamil al-Jahdari] serta [Ahmad bin Abdah] mereka berkata, telah menceritakan kepada kami [Hammad bin Yazid] dari [Mathar al Warraq] dari [Abdullah bin Buraidah] dari [Yahya bin Ya'mar] dia berkata, 'Ketika Ma'bad berkata dengan sesuatu yang dia bicarakan tentang masalah takdir, maka kami mengingkari hal tersebut.' Dia berkata lagi, 'Lalu aku melakukan haji bersama Humaid bin Abdurrahman al-Himyari.' Lalu mereka menyebutkan hadits dengan makna hadits Kahmas. Di dalamnya terdapat sebagian tambahan dan kekurangan huruf." Dan telah menceritakan kepada kami [Muhammad bin Hatim] telah menceritakan kepada kami [Yahya bin Sa'id al Qaththan] telah menceritakan kepada kami [Utsman bin Ghiyats] telah menceritakan kepada kami [Abdullah bin Buraidah] dari [Yahya bin Ya'mar] dan [Humaid bin Abdurrahman] keduanya berkata, "Kami bertemu [Abdullah bin Umar], lalu kami menyebutkan tentang takdir dan pendapat mereka tentangnya, lalu dia mengisahkan hadits tersebut sebagaimana hadits mereka dari [Umar] radlialllahu 'anhuma dari Nabi shallallahu 'alaihi wasallam, dan di dalamnya terdapat suatu tambahan dan pengurangan." Dan telah menceritakan kepada kami [Hajjaj bin asy-Sya'ir] telah menceritakan kepada kami [Yunus bin Muhammad] telah menceritakan kepada kami [al-Mu'tamir] dari [Bapaknya] dari [Yahya bin Ya'mar] dari [Ibnu Umar] dari [Umar] dari Nabi shallallahu 'alaihi wasallam dengan semisal hadits mereka
অত্র গ্রন্থের সংকলক ইমাম আবূল হুসায়ন মুসলিম ইবনুল হাজ্জাজ (রহঃ) বলেন, আমরা এ কিতাব আল্লাহর সাহায্যে শুরু করছি এবং তাকেই যথেষ্ট মনে করছি। মহা পরাক্রমশালী আল্লাহ ভিন্ন আমাদেরকে আর তাওফীকদাতা কেউ নেই। ১—(১/৮) আবূ খাইসামাহ যুহায়র বিন হারব (রহঃ) ..... ইয়াহইয়া ইবনু ইয়ামার থেকে বর্ণিত [1]। তিনি বলেন, বাসরার অধিবাসী মা'বাদ জুহাইনাহ প্রথম ব্যক্তি যে তাকদীর অস্বীকার করে। আমি ও হুমায়দ ইবনু 'আবদুর রহমান উভয়ে হজ্জ অথবা উমরাহ'র উদ্দেশে রওয়ানা করলাম। আমরা বললাম, যদি আমরা এ সফরে রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম এর যে কোন সাহাবার সাক্ষাৎ পেয়ে যাই তাহলে ঐ সব লোক তাকদীর সম্বন্ধে যা কিছু বলে সে সম্পর্কে তাকে জিজ্ঞেস করব। সৌভাগ্যক্রমে আমরা আবদুল্লাহ ইবনু উমর (রাযিঃ) এর মসজিদে ঢুকার পথে পেয়ে গেলাম। আমি ও আমার সাখী তাকে এমনভাবে ঘিরে নিলাম যে, আমাদের একজন তার ডান এবং অপরজন তার বামে থাকলাম। আমি মনে করলাম আমার সাখী আমাকেই কথা বলার সুযোগ দেবে। (কারণ আমি ছিলাম বাকপটু)। আমি বললামঃ "হে আবূ আবদুর রহমান। আমাদের এলাকায় এমন কিছু লোকের আবির্ভাব ঘটেছে, তারা একদিকে কুরআন পাঠ করে অপরদিকে জ্ঞানের অন্বেষণও করে। ইয়াহইয়া তাদের কিছু গুণাবলীর কথাও উল্লেখ করলেন। তাদের ধারণা (বক্তব্য) হচ্ছে, তাকদীর বলতে কিছু নেই এবং প্রত্যেক কাজ অকস্মাৎ সংঘটিত হয়।" ইবনু উমর (রাযিঃ) বললেনঃ “যখন তুমি এদের সাথে সাক্ষাৎ করবে তখন তাদেরকে জানিয়ে দাও যে, তাদের সাথে আমার কোন সম্পর্ক নেই, আর আমার সাথেও তাদের কোন সম্পর্ক নেই। আবদুল্লাহ ইবনু উমার (রাযিঃ) আল্লাহর নামে শপথ করে বললেন, এদের কারো কাছে যদি উহুদ পাহাড় পরিমাণ স্বর্ণ থাকে এবং তা দান-খয়রাত করে দেয় তবে আল্লাহ তার এ দান গ্রহণ করবেন না যতক্ষণ পর্যন্ত সে তাকদীরের উপর ঈমান না আনবে। অতঃপর তিনি বললেন, আমার পিতা উমার ইবনুল খাত্তাব (রাযিঃ) আমার কাছে বর্ণনা করেছেন, তিনি বলেনঃ একদা আমরা রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম-এর নিকট উপস্থিত ছিলাম। এমন সময় এক ব্যক্তি আমাদের সামনে আবির্ভূত হলো। তার পরনের কাপড়-চোপড় ছিল ধবধবে সাদা এবং মাথার চুলগুলো ছিল মিশমিশে কালো। সফর করে আসার কোন চিহ্নও তার মধ্যে দেখা যায়নি। আমাদের কেউই তাকে চিনেও না। অবশেষে সে নবী সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম এর সামনে বসলো। সে তার হাটুদ্বয় নবী সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম এর হাটুদ্বয়ের সাথে মিলিয়ে দিলো এবং দুই হাতের তালু তার (অথবা নিজের) উরুর উপর রাখলো এবং বলল, হে মুহাম্মাদ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম! আমাকে ইসলাম সম্বন্ধে বলুন। রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম বললেনঃ ইসলাম হচ্ছে এই– তুমি সাক্ষ্য দিবে যে, আল্লাহ ছাড়া প্রকৃতপক্ষে কোন ইলাহ (মাবূদ) নেই, এবং মুহাম্মাদ আল্লাহর রাসূল, সালাত কায়িম করবে, যাকাত আদায় করবে, রমযানের সওম পালন করবে এবং যদি পথ অতিক্রম করার সামর্থ্য হয় তখন বাইতুল্লাহর হজ্জ করবে। সে বললো, আপনি সত্যই বলেছেন। বর্ণনাকারী উমর (রাযিঃ) বলেন, আমরা তার কথা শুনে আশ্চর্যাম্বিত হলাম। কেননা সে (অজ্ঞের ন্যায়) প্রশ্ন করছে আর (বিজ্ঞের ন্যায়) সমর্থন করছে। এরপর সে বললো, আমাকে ঈমান সম্পর্কে বলুন। রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম বললেনঃ ঈমান এই যে, তুমি আল্লাহ, তার ফেরেশতাকুল, তার কিতাবসমূহ, তার প্রেরিত নবীগণ ও শেষ দিনের উপর ঈমান রাখবে এবং তুমি তাকদীর ও এর ভালো ও মন্দের প্রতিও ঈমান রাখবে। সে বললো, আপনি সত্যই বলেছেন। এবার সে বললো, আমাকে ইহসান সম্পর্কে বলুন। রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম বললেনঃ ইহসান এই যে, তুমি এমনভাবে আল্লাহর ইবাদাত করবে যেন তাকে দেখছো, যদি তাকে না দেখো তাহলে তিনি তোমাকে দেখছেন বলে অনুভব করবে। এবার সে জিজ্ঞেস করলো। আমাকে কিয়ামত সম্বন্ধে বলুন। রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম বললেনঃ এ ব্যাপারে জিজ্ঞাসাকারীর চেয়ে জিজ্ঞাসিত ব্যক্তি বেশি কিছু জানে না। অতঃপর সে বলল, তাহলে আমাকে এর কিছু নির্দশন বলুন। তিনি বললেন, দাসী তার মনিবকে প্রসব করবে [2] এবং (এককালের) নগ্নপদ, বস্ত্রহীন, দরিদ্র, বকরীর রাখালদের বড় দালান-কোঠা নির্মাণের প্রতিযোগিতায় গৰ্ব-অহংকারে মত্ত দেখতে পাবে [3]। বর্ণনাকারী উমার (রাযিঃ) বলেন, এরপর লোকটি চলে গেলো। আমি বেশ কিছুক্ষণ অপেক্ষা করলাম। তারপর রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম আমাকে বললেন, হে উমার! তুমি জান, এ প্রশ্নকারী কে? আমি আরয করলাম, আল্লাহ ও তার রাসূলই অধিক জ্ঞাত আছেন। রাসূলুল্লাহ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়া সাল্লাম বললেন, তিনি জিবরীল। তোমাদের কাছে তিনি তোমাদের দীন শিক্ষা দিতে এসেছিলেন। (ইসলামিক ফাউন্ডেশন বাংলাদেশ ১ম খণ্ড, ১; বাংলাদেশ ইসলামিক সেন্টার ১ম খণ্ড)
(أول من قال بالقدر) معناه أول من قال بنفي القدر فابتدع وخالف الصواب الذي عليه أصل الحق.
ويقال القدر والقدر، لغتان مشهورتان.
واعلم أن مذهب أهل الحق إثبات القدر.
ومعناه أن الله تبارك وتعالى قدر الأشياء في القدم، وعلم سبحانه أنها ستقع في أوقات معلومة عنده سبحانه وتعال وعلى صفات مخصوصة.
فهي تقع على حسب ما قدرها سبحانه وتعالى.
(فوفق لنا) معناه جعل وفقا لنا.
وهو من الموافقة التي هي كالالتحام.
يقال أتانا لتيفاق الهلال وميفاقه، أي حين أهل، لا قبله ولا بعده.
وهي لفظة تدل على صدق الاجتماع والالتئام.
(فاكتنفته أنا وصاحبي) يعني صرنا في ناحيتيه.
وكنفا الطائر: جناحاه.
(ويتقفرون العلم) ومعناه يطلبونه ويتبعونه.
وقيل معناه يجمعونه.
(وذكر من شأنهم) هذا الكلام من كلام بعض الرواة الذين دون يحيى بن يعمر.
يعني وذكر ابن يعمر من حال هؤلاء، ووصفهم بالفضيلة في العلم والاجتهاد في تحصيله والاعتناء به.
(وإن الأمر أنف) أي مستأنف، لم يسبق به قدر ولا علم من الله تعالى.
وإنما يعلمه بعد وقوعه.
(ووضع كفيه على فخديه) معناه أن الرجل الداخل وضع كفيه على فخدي نفسه.
وجلس على هيئة المتعلم.
(فعجبنا له يسأله ويصدقه) سبب تعجبهم أن هذا خلاف عادة السائل الجاهل.
إنما هذا كلام خبير بالمسئول عنه، ولم يكن في ذلك الوقت من يعلم ذلك غير النبي صلى الله عليه وسلم.
(الإحسان أن تعبد الله كأنك تراه الخ) قال القاضي عياض رحمه الله: هذا الحديث قد اشتمل على شرح جميع وظائف العبادات الظاهرة والباطنة، من عقود الإيمان وأعمال الجوارح وإخلاص السرائر والتحفظ من آفات الأعمال حتى إن علوم الشريعة كلها راجعة إليه ومتشعبة منه.
(أمارتها) الأمارة والأمار، بإثبات الهاء وحذفها هي العلامة.
(ربتها) في الرواية الأخرى ربها، على التذكير، وفي الأخرى بعلها، وقال: يعين السراري.
ومعنى ربها وربتها، سيدها ومالكها وسيدتها ومالكتها.
(العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان) أما العالة فهم الفقراء.
والعائل الفقير.
والعيلة الفقر.
وعال الرجل يعيل عيلة، أي افتقر.
والرعاء ويقال فيهم: رعاة، ومعناه أن أهل البادية وأشباههم من أهل الحاجة والفاقة تبسط لهم الدنيا حتى يتباهون في البنيان.
(فلبث مليا) هكذا ضبطناه من غير تاء، وفي كثير من الأصول المحققة لبثت، بزيادة ياء المتكلم.
وكلاهما صحيح.
(مليا) أي وقتا طويلا.
(حجة) هي بكسر الحاء وفتحها لغتان.
فالكسر هو المسموع من العرب.
والفتح هو القياس.