حديث الرسول ﷺ English الإجازة تواصل معنا
الحديث النبوي

حديث تلا هذه الآية يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى البقرة - سنن ابن ماجه

سنن ابن ماجه | (حديث: حتى بلغ فإن أمن بعضكم بعضا فقال هذه نسخت ما قبلها )

2365- عن أبي سعيد الخدري، قال: " تلا هذه الآية: {يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى} [البقرة: ٢٨٢] حتى بلغ {فإن أمن بعضكم بعضا} [البقرة: ٢٨٣] ، فقال: هذه نسخت ما قبلها


ترجمة الحديث باللغة الانجليزية

It was narrated that :Abu Sa'eed Al-Khudri recited this Verse: “O you who believe! When you contract a debt for a fixed period...” until: “then if one of you entrusts the other.” Then he said: “This abrogates what came before.”

Al-Albani said: Hadith Hasan


ترجمة الحديث باللغة الأوردية

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى» کی تلاوت کی، یہاں تک کہ «فإن أمن بعضكم بعضا» یعنی اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہیئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو، تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو چاہیئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں، خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو، اور ( یاد رکھو کہ ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو گے تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جیسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے، اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپا لے وہ گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ( سورۃ البقرہ: ۲۸۲، ۲۸۳ ) تک پہنچے تو فرمایا: اس آیت نے اس پہلی والی آیت کو منسوخ کر دیا ہے۔


ترجمة الحديث باللغة التركية

Ebû Saîd-i Hudrî (r.a.)'den rivayet edildiğine göre kendisi: يَأَيُّهَا الَّذينَ آَمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدشيْنٍ إِلَى أَجَل مُسَمَّى [Bakara 282](Ey îman edenler birbirinize belirli bir süre için borçlandığınız zaman) âyetini okudu ve nihayet فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضاً [Bakara 283] (Eğer bâzınız bâzınıza güvenirse — Yâni borcu sened, şâhidler veya rehinle tevsik etmeye gerek duymazsa— güvenilen (borçlu) kimse borcunu ödesin) âyetine gelince : Bu âyet, bundan öncekini neshettti, dedi. Not: Zevaid'de şöyle denilmiştir: Bu, mevkuf bir seneddir. Fakat merfu hükmündedir


ترجمة الحديث باللغة الإندونيسية

Telah menceritakan kepada kami [Ubaidullah bin Yusuf Al Jubairi] dan [Jamil bin Al Hasan Al Atiki] keduanya berkata; telah menceritakan kepada kami [Muhammad bin Marwan Al Ijli] berkata, telah menceritakan kepada kami [Abdul Malik bin An Nadlrah] dari [Bapaknya] dari [Abu Sa'id Al Khudri] ia berkata ketika dia membaca ayat ini: ' Wahai orang-orang yang beriman, apabila kalian berhutang piutang untuk waktu tertentu, hendaklah kalian menuliskannya, hingga ayat: ' Akan tetapi jika sebagian kalian percaya kepada sebagian yang lain', ia mengatakan, "Ayat ini menghapus ayat yang sebelumnya


ترجمة الحديث باللغة البنغالية

। আবূ সাঈদ আল-কুদরী (রাঃ) তেকে বর্ণিত। তিনি এই আয়াত তিলাওয়াত করলে (অনুবাদ) ‘‘হে মুমিনগণ! তোমরা যখন একে অপরের সাথে নির্দিষ্ট মেয়াদের জন্য ঋণের লেনদেন করো তখন তা লিপিবদ্ধ করে রাখো ...’’ (২ঃ ২৮২)। তিনি তিলাওয়াত করতে করতে ‘‘তোমাদের একে অপরকে বিশ্বাস করলে, যাকে বিশ্বাস করা হয়, সে যেন আমানত প্রত্যর্পণ করে’’ ২ঃ ২৮৩) পর্যন্ত পৌঁছে বলেন, এই শেষোক্ত বিধান তার পূর্ববর্তী বিধানকে রহিত করেছে।



إسناده حسن، محمد بن مروان العجلي -وهو العقيلي- وشيخه عبد الملك ابن أبي نضرة صدوقان حسنا الحديث.
وأخرجه البخاري في "التاريخ الكبير" ١/ ٢٣٢، والطبري في "التفسير" (٦٣٣٧)، وابن أبي حاتم في "التفسير" ٢/ ٥٧٠، وابن النحاس في "الناسخ والمنسوخ " ص ١٠١، وابن عدي في "الكامل" ٦/ ٢٢٦٧، والبيهقي ٦/ ١٤٥ من طرق عن محمد بن مروان، بهذا الإسناد.
وفي دعوى النسخ نظر، فقد قال ابن الجوزي في "نواسخ القرآن" ص ٢٢٣: هذا ليس بنسخ، لأن الناسخ ينافي المنسوخ، ولم يقل ها هنا: فلا تكتبوا ولا تشهدوا، وإنما بين التسهيل في ذلك، ولو كان مثل هذا ناسخا، لكان قوله: {فلم تجدوا ماء فتيمموا} [النساء: ٤٣] ناسخا للوضوء بالماء، وقوله: {فمن لم يجد فصيام شهرين} ناسخا قوله: {فتحرير رقبة} [النساء: ٩٢] والصحيح أنه ليس ها هنا نسخ، وأنه أمر ندب، وقد اشترى رسول الله ي الفرس الذي شهد فيه خزيمة بلا إشهاد.
وقد نفى القول بالنسخ أيضا الطبري، وجزم بأن آية الإشهاد محكمة، وأن الإشهاد باق على الوجوب، أما أبو عبيد القاسم بن سلام فقال في "الناسخ والمنسوخ" ص ١٤٦: والعلماء اليوم من أهل الحجاز وأهل العراق وغيرهم على هذا القول: أن شهادة المبايعة ليست بحتم على الناس إلا أن يشاؤوا، للآية الناسخة بعدها، وهو قوله عزو جل: {فإن أمن بعضكم بعضا} [البقرة: ٢٨٣] ويرون أن البيعين مخيران في الشهادة والترك، فهذا ما في نسخ شهادة البيوع.